پی ایم انڈیا
مرکزی کابینہ میں میرے معاونین انپورنا دیوی، ساوتری ٹھاکر، رونیت سنگھ، ہرش ملہوترا ، دہلی حکومت سے آئے ہوئے معزز وزراء،و دیگر قابل احترام شخصیات، ملک کےگوشے گوشے سے یہاں حاضر مہمانان اور پیارے بچوں!
آج ملک “ویر بال دیوس” منا رہا ہے۔ ابھی ونده ماترم کی اتنی خوبصورت پیشکش ہوئی ہے، آپ کی محنت واضح طور نظر آ رہی ہے۔
ساتھیو!
آج ہم ان ویر صاحبزادوں کو یاد کر رہے ہیں، جو ہمارے ملک ہندوستان کا فخر ہیں۔ جو ہندوستان کی غیر معمولی ہمت، شہرت اور بہادری کی انتہاکی مثال ہیں۔وہ ویر صاحبزادے، جنہوں نے عمر اور حالت کی حدود کو توڑ دیا اور جو ظالم مغل سلطنت کے سامنے ایسے چٹان کی طرح کھڑے ہوئے کہ مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کا وجود بھی لرز گیا۔ جس قوم کے پاس ایسا قابل فخر ماضی ہو اور جس کی نوجوان نسل کو ایسی حوصلہ افزا ئی میراث ملی ہو، وہ ملک کیا کچھ نہیں کر سکتا۔
ساتھیو!
جب بھی 26 دسمبر کا یہ دن آتا ہے، تو مجھے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہماری حکومت نے صاحبزادوں کی بہادری سے متاثر ہو کر ویر بال دیوس منانا شروع کیا۔ گزشتہ چار برسوں میں ویر بال دیوس کی نئی روایت نے صاحبزادوں کی حوصلہ افزا کہانیوں کو نئی نسل تک پہنچایا ہے۔ ویر بال دیوس نے بہادر اور باصلاحیت نوجوانوں کی نشونما کے لیے ایک منصوبہ بند پلیٹ فارم بھی تیار کیا ہے۔ہر سال وہ بچے جو مختلف شعبوں میں ملک کے لیے کچھ کر دکھاتے ہیں، انہیں’پردھان منتری بال پرسکار‘سے نوازا جاتا ہے۔ اس بار بھی ملک کے مختلف حصوں سے آئے 20 بچوں کو اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ یہ سب ہمارے درمیان موجود ہیں اور مجھے ابھی ان کے ساتھ کافی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ان میں سے کسی نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کیا ہے، کسی نے سماجی خدمت اور ماحولیات کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیے ، کچھ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کچھ نئےاختراعی اقدامات کیے ہیں، جبکہ کئی نوجوان کھیل، فن اور ثقافت کے شعبوں میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔میں ان ایوارڈ یافتہ بچوں سے کہوں گا، یہ اعزاز نہ صرف آپ کے لیے ہے ،بلکہ آپ کے والدین، آپ کے اساتذہ اور مینٹروں کی محنت اور لگن کا بھی اعتراف ہے۔ میں ان ایوارڈ یافتہ بچوں اور ان کے خاندانوں کو روشن مستقبل کے لیے دل کی گہرائیوں سےنیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو!
ویر بال دیوس کا یہ دن جذبے اور عقیدت سے بھرپور ہے۔ صاحبزادہ اجیت سنگھ جی، صاحبزادہ جُجھار سنگھ جی، صاحبزادہ جوراور سنگھ جی اور صاحبزادہ فتح سنگھ جی کو چھوٹی سی عمر میں اس وقت کی سب سے بڑی طاقت ٹکرانا پڑا۔یہ لڑائی ہندوستان کے بنیادی اقدار اور مذہبی شدت پسندی کے درمیان تھی، یہ لڑائی سچائی بمقابلہ جھوٹ کی تھی۔ اس لڑائی کے ایک طرف دشَم گرو سری گرو وند سنگھ جی تھے اور دوسری طرف ظالم اورنگزیب کی حکومت تھی۔ ہمارے صاحبزادے اس وقت عمر میں بہت چھوٹے ہی تھے،لیکن اورنگزیب کو اور اس کے ظالمانہ رویہ کواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ جانتا تھا، ہندوستان کے لوگوں کو خوفزدہ کر کے ان کا مذہب تبدیل کرانا ہےا اور اس کے لیے اسے ہندوستانیوں کی حوصلہ شکنیکرنی ہوگی۔ اسی لیے اس نے صاحبزادوں کو نشانہ بنایا۔
لیکن ساتھیو!
اورنگزیب اور اس کے سپہ سالار یہ بھول گئے تھے کہ ہمارے گرو کوئی عام انسان نہیں تھے، وہ تپسیا اور قربانی کے مجسم اوتار تھے۔ وہی وراثت ویر صاحبزادوں کو ان سے ملی تھی۔ اسی لیے، چاہے پوری مغلیہ بادشاہت ان کے پیچھے لگ گئی، لیکن وہ چاروں میں سے ایک بھی صاحبزادے کو متزلزل نہ کر سکے۔صاحبزادہ اجیت سنگھ جی کے الفاظ آج بھی ان کے حوصلے کی داستان سناتے ہیں:’’نام کا اجیت ہوں، جیتا نہ جا جاؤں گا، جیتا بھی گیا ، تو جیتا نہ آؤں گا!( نام کا اجیت ہوں، ہرایا نہیں جا سکتااور اگر مارا بھی گیا تو شکست نہیں مانوں گا!”)-
ساتھیو!
چندروز قبل ہی ہم نے شری گرو تیغ بہادر جی کو ان کے 350ویں یوم شہادت پر یاد کیا۔ اس دن کروکشیتر میں ایک خصوصی پروگرام بھی منعقد ہوا تھا۔ جن صاحبزادوں کے پاس شری گرو تیغ بہادر جی کی قربانی کی تحریک ہو، وہ مغل مظالم سے خوفزدہ ہو جائیں گے—یہ سوچنا ہی غلط تھا۔
ساتھیو!
ماتاجگری، شری گرو گوبند سنگھ جی اور چاروں صاحبزادوں کی بہادری اور اصول آج بھی ہر ہندوستانی کو قوت فراہم کرتےہیں اور ہمارے لیے باعث تحریک ہیں۔ صاحبزادوں کی قربانی کی داستان ملک میں ہر عام آدمی کی زبان پر ہونی چاہیے تھی، لیکن بدقسمتی سے آزادی کے بعد بھی ملک میں غلامی کی ذہنیت غالب رہی۔ جس غلامی کی ذہنیت کے بیج انگریز سیاستدان میکالی نے 1835 میں بوئے تھے، اس ذہنیت سے ملک کو آزادی کے بعد بھی مکمل آزاد نہیں ہونے دیا ۔ اسی لیے آزادی کے بعد بھی ملک میں دہائیوں تک ایسی سچائیوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔
لیکن ساتھیو!
اب ہندوستان نے فیصلہ کیا ہے کہ غلامی کی ذہنیت سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ اب ہم ہندوستانیوں کی قربانیاں، ہمارے شجاعت کی یادوں کو دبنے نہیں دیں گے۔ اب ملک کے ہیروز – ہیروئنز‘کو حاشیے پر نہیں رکھا جائے گا۔ اسی لیے ہم ویر بال دیوس کو پورے جذبے اور عقیدت کے ساتھ منا رہے ہیں اور ہم صرف اتنے پر ہی نہیں رکے ہیں۔ میکالی نے جو سازش رچی تھی، سال 2035 میں اس کے 200 سال مکمل ہونے میں تھوڑے وقت رہ گئے ہیں، یعنی ابھی اس میں صرف 10 سال باقی ہیں۔ انہی 10 سالوں میں ہم ملک کو مکمل طور پر غلامی کی ذہنیت سے آزادکر کے رہیں گے۔ 140 کروڑ ملککے عوام کا یہ عزم ہونا چاہیے، کیونکہ جب ملک اس غلامی کی ذہنیت سے آزاد ہوگا، تب ہی اتنا ہی سودیسی پر فخر کرے گا اور اتنی ہی خود کفالت کی سمت میں آگے بڑھے گا۔
ساتھیو!
غلامی کی ذہنیت سے آزادی کے اس مشن کی ایک جھلک چند دن پہلے ہمارے ملک کی پارلیمنٹ میں بھی دیکھی گئی۔ ابھی پارلیمنٹ کے سردیوں کے اجلاس میں اراکین نے ہندی اور انگریزی کے علاوہ تقریباً 160 تقریریں دوسری ہندوستانی زبانوں میں کیں۔ تقریباً 50 تقریریں تمل میں ہوئیں، 40 سے زیادہ تقریریں مراٹھی میں ہوئیں اور تقریباً 25 تقریریں بنگلہ میں ہوئیں۔ دنیا کی کسی بھی پارلیمنٹ میں ایسا منظر دیکھنا مشکل ہے۔ یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے۔ہندوستان کی اس لسانی تنوع کو بھی میکالی نے کچلنے کی کوشش کی تھی۔ اب غلامی کی ذہنیت سے آزاد ہوتے ہمارے ملک میں لسانی تنوع ہماری طاقت بن رہا ہے۔
ساتھیو!
میرایوا بھارت تنظیم سےوابستہ اتنے سارے نوجوان یہاں موجود ہیں۔ ایک طرح سے آپ سب جین جی ہیں-جین الفا بھی ہیں۔ آپ کی نسل ہی ہندوستان کووکست بھارت کے ہدف تک لے جائے گی۔ میں جین زی(جنریشن زیڈ) کی صلاحیت، آپ کا اعتماد دیکھتا ہوں، سمجھتا ہوں اور اسی لیے آپ پر بہت اعتماد کرتا ہوں۔ہمارے یہاں کہا گیا ہے: ’’ بلادپی گرہتتیہ یوکت مکتم منی شیبھ‘‘ یعنی اگر چھوٹا بچہ بھی کوئی عقل کی بات کرے تو اسے قبول کرنا چاہیے۔ یعنی عمر سے کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ آپ بڑے بنیں گے اپنے کاموں اور کامیابیوں سے۔ آپ کم عمر میں بھی ایسے کام کر سکتے ہیں کہ باقی لوگ آپ سے متاثر ہوں۔ آپ نے یہ کرکے دکھایا ہے،لیکن ان کامیابیوں کو ابھی صرف ابتداء کے طور پر دیکھنا ہے۔ ابھی آپ کو بہت آگے بڑھنا ہے۔ ابھی خوابوں کو آسمان تک لے جانا ہے۔ اور آپ خوش قسمت ہیں کہ جس نسل میں آپ پیدا ہوئے ہیں، آپ کی صلاحیت کے ساتھ ملک مضبوطی سے کھڑا ہے۔ پہلے نوجوان خواب دیکھنے سے بھی ڈرتے تھے، کیونکہ پرانے نظام میں یہ ماحول بن گیا تھا کہ کچھ اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہر طرف مایوسی کا ماحول تھا اور لوگوں کو لگنے لگا کہ محنت کرنے کا کیا فائدہ؟لیکن آج ملک صلاحیت کو تلاش کرتا ہے، انہیں موقع دیتا ہے۔ ان کے خوابوں کے ساتھ 140 کروڑ ملککے عوام کی طاقت لگ جاتی ہے۔
ڈیجیٹل انڈیا کی کامیابی کی وجہ سے آپ کے پاس انٹرنیٹ کی طاقت ہے، آپ کے پاس سیکھنے کے وسائل موجود ہیں۔ جو سائنس، ٹیکنالوجی اور اسٹارٹ اپ کی دنیا میں جانا چاہتے ہیں، ان کے لیے اسٹارٹ اپ انڈیا جیسے مشنز ہیں۔ جو کھیلوں میں آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے لیے کھیلوں انڈیا مشن ہے۔ ابھی دو دن پہلے میں نے سنسد کھیل مہوتسو میں بھی حصہ لیا۔ ایسے تمام پلیٹ فارمز آپ کو آگے بڑھانے کے لیے ہیں۔آپ صرف توجہ مرکوز رکھنی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ مختصر مدتی شہرت کی چمک دمک میں نہ پھنسیں۔ یہ تب ہوگا، جب آپ کی سوچ واضح ہوگی، جب آپ کے اصول واضح ہوں گے۔ اسی لیے، آپ کو اپنے مشعل راہ سے سیکھنا ہے، ملک کی عظیم شخصیات سے سیکھنا ہے۔آپ کو اپنی کامیابی کو صرف اپنے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ آپ کا مقصد ،آپ کی کامیابی ملک کی کامیابی ہونی چاہیے۔
ساتھیو!
آج نوجوانوں کوبااختیار بنانے کوذہن میں رکھتے ہوئے نئی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو قوم کی تعمیر کے مرکز میں رکھا گیا ہے۔ ‘میرا یوا بھارت’ جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے نوجوانوں کو جوڑنے، انہیں مواقع دینے اور ان میںقائدانہ صلاحیت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔خلائی معیشت کو آگے بڑھانا، کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرنا، فِن ٹیک اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کو وسعت دینا، اسکل ڈیولپمنٹ اور انٹرنشپ کے مواقع فراہم کرنا—ایسی ہر کوشش کے مرکز میں میرے نوجوان ساتھی ہیں۔ ہر شعبے میں نوجوانوں کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
ساتھیو!
آج ہندوستان کے سامنے حالات بے مثال ہیں۔ آج ہندوستان دنیا کے سب سے نوجوان ممالک میں سے ایک ہے۔ آئندہ پچیس برس ہندوستان کی سمت طے کرنے والے ہیں۔ آزادی کے بعد شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہندوستان کی صلاحیتیں، ہندوستان کی امنگیں اور دنیا کی توقعات ہندوستان سے، تینوں ایک ساتھ مل رہی ہیں۔آج کے نوجوان ایسے وقت میں بڑے ہو رہے ہیں، جب مواقع پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم ہندوستان کے نوجوانوں کی صلاحیت، اعتماد اور قیادت کی قابلیت کو بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
میرے نوجوان ساتھیو!
وکست بھارت کی مضبوط بنیاد کے لیے ہندوستان کی تعلیمی پالیسی میں بھی اہم اصلاحات کی گئی ہیں۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کا مرکز 21ویں صدی میں تعلیم کے نئےطور طریقوں پرمرکوز ہے۔ آج توجہ عملی تعلیم پر ہے، تاکہ بچوں میں رٹنے کے بجائے سوچنے کی عادت پیدا ہو، انہیں سوال پوچھنے کا حوصلہ اور حل تلاش کرنے کی صلاحیت آئے اور پہلی بار اس سمت میں معنی خیز اقدامات کیے جا رہے ہیں۔کثیر الشعبہ تعلیم، ہنر پر مبنی تعلیم، کھیلوں کی حوصلہ افزائی اور ٹیکنالوجی کا استعمال، ان سب سے طلباء کو بہت مدد مل رہی ہے۔ آج ملک بھر میں اٹل ٹِنکرنگ لیبز میں لاکھوں بچےاختراعات اور تحقیق سے جڑ رہے ہیں، اسکولوں میں ہی بچے روبوٹکس، اے آئی، پائیداری اور ڈیزائن تھنکنگ سے واقف ہو رہے ہیں۔ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ قومی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان میں تعلیم کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ اس سے بچوں کے لیے تعلیم میں آسانی ہو رہی ہے اور مضامین کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔
ساتھیو!
ویر صاحبزادوں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ راستہ کتنا مشکل ہے۔ انہوں نے یہ دیکھا تھا کہ راستہ صحیح ہے یا نہیں۔ آج بھی اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ میں ہندوستان کے نوجوانوں سے یہی توقع رکھتا ہوں کہ وہ بڑے خواب دیکھیں، محنت کریں اور اپنے اعتماد کو کبھی کمزور نہ ہونے دیں۔
ہندوستان کا مستقبل اس کے بچوں اور نوجوانوں کے مستقبل سے ہی روشن ہوگا۔ ان کی بہادری، صلاحیت اور لگن قوم کی ترقی کو سمت دے گی۔ اسی یقین کے ساتھ، اس ذمہ داری کے ساتھ اور اسی مسلسل رفتار کے ساتھ، ہندوستان اپنے مستقبل کی طرف آگے بڑھتا رہے گا۔میں ایک بار پھر ویر صاحبزادوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ تمام ایوارڈ یافتہ بچوں کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
*********************
(ش ح۔ م ع ن)
UR-3941
Addressing a programme on Veer Baal Diwas. We remember the exemplary courage and sacrifice of the Sahibzades.
— Narendra Modi (@narendramodi) December 26, 2025
https://t.co/kQPb0RmaIj
Today, we remember the brave Sahibzades, the pride of our nation. They embody India's indomitable courage and the highest ideals of valour. pic.twitter.com/gOoSf5FQlE
— PMO India (@PMOIndia) December 26, 2025
The courage and ideals of Mata Gujri Ji, Sri Guru Gobind Singh Ji and the four Sahibzades continue to give strength to every Indian. pic.twitter.com/9mwfF0VL00
— PMO India (@PMOIndia) December 26, 2025
India has resolved to break free from the colonial mindset once and for all. pic.twitter.com/9l6Dt3F0XI
— PMO India (@PMOIndia) December 26, 2025
As India frees itself from the colonial mindset, its linguistic diversity is emerging as a source of strength. pic.twitter.com/6TA3P9JzA9
— PMO India (@PMOIndia) December 26, 2025
Gen Z… Gen Alpha… will lead India to the goal of a Viksit Bharat. pic.twitter.com/XzwUt2nvtt
— PMO India (@PMOIndia) December 26, 2025