Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا نئی دہلی میں ہندستان ٹائمز لیڈر شپ سمِٹ 2025 سے خطاب

وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا نئی دہلی میں ہندستان ٹائمز لیڈر شپ سمِٹ 2025 سے خطاب


وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں ہندستان ٹائمز لیڈرشپ سمٹ 2025 سے خطاب کیا۔ اس موقع کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اس سمٹ میں ملک اور بیرون ملک سے آئے ہوئے متعدد معزز مہمان موجود ہیں اور انہوں نے منتظمین سمیت تمام ان لوگوں کو مبارکباد پیش کی جنہوں نے اپنے خیالات رکھے۔ جناب مودی نے بتایا کہ شوبھانا جی نے اپنی گفتگو میں دو نکات کا ذکر کیا تھا جن پر انہوں نے خصوصی توجہ دی۔ پہلا نکتہ ان کے اُس مشورے سے متعلق تھا جو انہوں نے اپنی گزشتہ آمد کے وقت دیا تھا، ایسا مشورہ جو عموماً میڈیا اداروں کو نہیں دیا جاتا، لیکن انہوں نے دیا۔ انہیں خوشی ہے کہ شوبھانا جی اور ان کی ٹیم نے اسے پوری دلچسپی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ نمائش دیکھنے گئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ فوٹوگرافرز نے لمحوں کو اس طرح محفوظ کیا ہے کہ وہ امر ہو گئے ہیں اور انہوں نے سب کو اسے دیکھنے کا مشورہ دیا۔ جناب مودی نے شوبھانا جی کے دوسرے نکتے کا بھی حوالہ دیا، جسے انہوں نے صرف یہ خواہش نہیں سمجھا کہ وہ ملک کی خدمت جاری رکھیں، بلکہ یہ ہندستان ٹائمز کی طرف سے یہ کہنے کے برابر ہے کہ وہ اسی جذبے سے خدمت کرتے رہیں جس پر انہوں نے خاص طور پر اظہارِ تشکر کیا۔

جناب مودی نے اس سال کے سمٹ کے موضوع ’’کل کی اصلاحات‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ ہندستان ٹائمز کی 101 سالہ تاریخ ہے اور اسے مہاتما گاندھی، مدن موہن مالویہ اور گھنشیام داس برلا جیسے عظیم رہنماؤں کی دعائیں حاصل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ایسا اخبار ’’کل کی اصلاحات‘‘ جیسا موضوع چنتا ہے تو یہ ملک کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ہندوستان میں جو تبدیلی آ رہی ہے، وہ صرف امکانات کی بات نہیں بلکہ ایک حقیقی کہانی ہے،زندگیاں بدلنے کی، سوچ بدلنے کی اور سمتیں بدلنے کی۔

انہوں نے کہا کہ آج بھارت کے آئین کے معمار ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا مہاپرینروان دوس بھی ہے اور اس موقع پر تمام ہندوستانیوں کی جانب سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں 21ویں صدی کا چوتھائی حصہ گزر چکا ہے۔ ان 25 برسوں میں دنیا نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ مالی بحران، عالمی وبا، تکنیکی انقلابات، تقسیم در تقسیم ہوتی دنیا اور مختلف جنگیں۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ یہ تمام حالات مختلف صورتوں میں دنیا کو چیلنج کر رہے ہیں اور دنیا بے یقینی سے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اس غیر یقینی کے دور میں ہندوستان خود کو ایک مختلف لیگ میں پیش کر رہا ہے، پورے اعتماد کے ساتھ۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جب دنیا سست روی کی بات کرتی ہے تو ہندوستان ترقی کی نئی کہانی لکھتا ہے، جب دنیا میں اعتماد کا بحران ہوتا ہے تو ہندوستان اعتماد کا ستون بنتا ہے، اور جب دنیا تقسیم کی طرف بڑھتی ہے تو ہندوستان پل بنانے والے کے طور پر ابھرتا ہے۔

وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی ہندوستان کی دوسری سہ ماہی کا جی ڈی پی ڈیٹا جاری ہوا ہے، جو آٹھ فیصد سے زیادہ کی شرحِ ترقی دکھاتا ہے اور یہ ترقی کی نئی رفتار کا مظہر ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ صرف ایک عدد نہیں بلکہ ایک مضبوط معاشی اشارہ ہے، ایک پیغام کہ آج ہندوستان عالمی معیشت کا ترقیاتی محرک بنتا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار اُس وقت سامنے آئے ہیں جب عالمی معاشی ترقی تقریباً تین فیصد کے آس پاس ہے اور جی۔7 ممالک کی اوسط ترقی ڈیڑھ فیصد کے قریب ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایسے حالات میں ہندوستان تیز رفتار ترقی اور کم افراطِ زر کا نمونہ بن کر ابھرا ہے۔ جناب مودی نے یاد دلایا کہ ایک وقت تھا جب ماہرینِ معاشیات زیادہ افراطِ زر پر فکر مندی کا اظہار کرتے تھے، لیکن آج وہی ماہرین کم افراطِ زر کی بات کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان کی کامیابیاں معمولی نہیں ہیں اور نہ ہی یہ صرف اعداد و شمار کا کھیل ہیں بلکہ وہ بنیادی تبدیلیوں کی علامت ہیں جو ملک نے گزشتہ ایک دہائی میں برپا کی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بنیادی تبدیلی، لچک پیدا کرنے، مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت بڑھانے، خدشات کے بادل دور کرنے اور امنگوں کو وسعت دینے سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ آج کا ہندوستان خود کو تبدیل کر رہا ہے اور آنے والے کل کو بھی تبدیل کر رہا ہے۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ جب ہم ’کل کی تبدیلی‘ کی بات کرتے ہیں، تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس تبدیلی کا اعتماد آج کیے جانے والے کام کی مضبوط بنیاد پر قائم ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ آج کی اصلاحات اور آج کی کارکردگی ہی آنے والے کل کی تبدیلی کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔

حکومت کے کام کرنے کے طریقۂ کار کو واضح کرتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ ہندوستان کی بڑی صلاحیتیں طویل عرصے تک غیر استعمال شدہ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ غیر استعمال شدہ صلاحیتیں بہتر مواقع پاتی ہیں اور جب یہ ملک کی ترقی میں پوری طرح اور بغیر رکاوٹ کے شامل ہوتی ہیں تو ملک کی تبدیلی یقینی ہو جاتی ہے۔ وزیر اعظم نے مشرقی بھارت، شمال مشرق، دیہات، ٹائر2 اور ٹائر3 شہروں، خواتین کی قوت، جدت طراز نوجوانوں، سمندری طاقت اور بلیو اکانومی اور خلائی شعبے پر غور کرنے کی اپیل کی اور بتایا کہ گزشتہ دہائیوں میں ان کی پوری صلاحیت استعمال نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان ان تمام امکانات کو بروئے کار لانے کے نظریے کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ جناب مودی نے مزید بتایا کہ مشرقی بھارت میں جدید بنیادی ڈھانچے، کنیکٹیوٹی اور صنعت میں بے مثال سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیہات اور چھوٹے شہروں کو جدید سہولیات سے لیس کیا جارہا ہے، چھوٹے شہر نئے اسٹارٹ اپس اور ایم ایس ایم ای مراکز بن رہے ہیں اور گاؤں کے کسان ایف پی اوز بنا کر عالمی منڈیوں سے براہ راست جڑ رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کی ناری شکتی غیر معمولی کارنامے سرانجام دے رہی ہے اور ملک کی بیٹیاں آج ہر شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ تبدیلی اب صرف خواتین کے بااختیار بنانے تک محدود نہیں رہی بلکہ پورے سماج کی ذہنیت اور طاقت کو تبدیل کر رہی ہے۔

وزیر اعظم نے واضح کیا کہ جب نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور رکاوٹیں دور کی جاتی ہیں تو پرواز کے لیے نئے پر لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے خلائی شعبے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعبہ پہلے صرف حکومت کے زیرِانتظام تھا، لیکن اسے نجی شعبے کے لیے کھولنے کی اصلاحات نافذ ہوئیں اور اب اس کے نتائج پوری قوم دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف 10–11 روز پہلے انہوں نے حیدرآباد میں اسکائی روٹ کے ’انفینٹی کیمپس‘ کا افتتاح کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسکائی روٹ جو ہندوستان کی ایک نجی خلائی کمپنی ہے، ہر ماہ ایک راکٹ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور ’وکرم–1‘ کے فلائٹ ریڈی ورژن کو تیار کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے پلیٹ فارم فراہم کیا اور ہندوستان کے نوجوان اس پر نیا مستقبل تعمیر کر رہے ہیں اور یہی حقیقی تبدیلی ہے۔

جناب مودی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندوستان میں آنے والی ایک اور بڑی تبدیلی قابلِ بحث ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایک وقت ایسا تھا جب اصلاحات صرف ردِعمل کے طور پر کی جاتی تھیں، یا تو سیاسی مفاد کے لیے یا کسی بحران کو سنبھالنے کے لیے۔ انہوں نے کہا کہ آج اصلاحات قومی اہداف کو سامنے رکھ کر کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہر شعبے میں بہتری آ رہی ہے، ہندوستان کی رفتار مسلسل ہے، سمت واضح ہے اور نیت پوری طرح ’قوم مقدم‘ کے اصول پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2025 اصلاحات کا سال رہا ہے، جن میں سب سے اہم ’اگلی نسل کا جی ایس ٹی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان اصلاحات کے اثرات پورے ملک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال براہِ راست ٹیکس کے نظام میں بھی بڑی اصلاح کی گئی ہے—12 لاکھ روپے تک کی آمدنی پر صفر ٹیکس، جو ایک دہائی پہلے ناقابلِ تصور تھا۔

اصلاحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ صرف تین سے چار روز پہلے ’اسمال کمپنی‘ کی تعریف میں ترمیم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ہزاروں کمپنیاں اب آسان قوانین، تیز تر عمل اور بہتر سہولیات کے دائرے میں آگئی ہیں۔ وزیر اعظم نے مزید بتایا کہ تقریباً 200 مصنوعات کی اقسام کو لازمی کوالٹی کنٹرول آرڈر سے بھی نکال دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا: ’’ہندوستان کا آج کا سفر صرف ترقی کا سفر نہیں بلکہ ذہنیت کی تبدیلی اور نفسیاتی احیائے نو کا سفر ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کوئی ملک خود اعتمادی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور بدقسمتی سے نوآبادیاتی دور نے ہندوستان کا اعتماد بڑی حد تک مجروح کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہی نوآبادیاتی ذہنیت ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے اور اسی لیے آج کا ہندوستان خود کو اس ذہنیت سے آزاد کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

جناب مودی نے کہا کہ برطانوی اچھی طرح جانتے تھے کہ ہندوستان پر طویل عرصے تک حکومت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستانیوں سے ان کا اعتماد چھین لیا جائے اور ان کے ذہن میں احساسِ کمتری پیدا کیا جائے اور انہوں نے اپنے دور میں یہی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی خاندانی نظام کو فرسودہ قرار دیا گیا، ہندوستانی لباس کو غیر پیشہ ورانہ کہا گیا، ہمارے تہواروں اور ثقافت کو غیر شعوری ٹھہرایا گیا، یوگا اور آیوروید کو غیر سائنسی کہا گیا اور ہندوستانی ایجادات کا مذاق اڑایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصورات دہائیوں تک پھیلائے، پڑھائے اور دوہرائے گئے، جس سے ہندوستانی خود اعتمادی کمزور پڑ گئی۔

نوآبادیاتی ذہنیت کے وسیع اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ وہ اس کی وضاحت کے لیے چند مثالیں پیش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ آج ہندوستان دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی بڑی معیشت ہے، جسے عالمی ترقی کے انجن اور عالمی طاقت کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے اور ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ آج ہندوستان اتنی تیز ترقی کر رہا ہے، لیکن کوئی اسے ’ہندو ریٹ آف گروتھ‘ نہیں کہتا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یہ اصطلاح اُس وقت استعمال ہوتی تھی جب ہندوستان مشکل سے دو سے تین فیصد کی ترقی حاصل کر پاتا تھا۔ وزیر اعظم نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی ملک کی معاشی کارکردگی کو اس کے عوام کے مذہب یا شناخت کے ساتھ جوڑ دینا محض اتفاق تھا؟ انہوں نے کہا کہ یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی نشانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پورے سماج اور روایت کو غیر پیداواری اور غریب دکھایا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان کی سست ترقی ہندو تہذیب اور ثقافت کی وجہ سے ہے۔ جناب مودی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ وہ نام نہاد دانشور جو ہر چیز میں فرقہ واریت تلاش کرتے ہیں، انہوں نے ’ہندو ریٹ آف گروتھ‘ میں فرقہ واریت نہیں دیکھی اور اپنے دور میں اسے کتابوں اور تحقیقی مقالوں کا حصہ بنا دیا۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ نوآبادیاتی ذہنیت نے ہندوستان کی پیداواری صنعت کو بھی تباہ کر دیا تھا اور انہوں نے وضاحت کی کہ ملک اسے کس طرح دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نوآبادیاتی دور میں بھی ہندوستان اسلحہ و گولہ بارود تیار کرنے والا ایک بڑا ملک تھا، یہاں آرمومنٹ فیکٹریوں کا مضبوط نیٹ ورک تھا اور ہندوستانی ہتھیار دنیا کی جنگوں میں استعمال ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد ملک کی دفاعی صنعت کو ختم کر دیا گیا، کیونکہ نوآبادیاتی ذہنیت رکھنے والوں نے ہندوستان میں بنے ہتھیاروں کی قدر نہ کی اور ملک دنیا کے سب سے بڑے دفاعی درآمد کنندگان میں شامل ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی ذہنیت نے جہاز سازی کی صنعت کو بھی متاثر کیا، جو صدیوں تک ہندوستان کی ایک بڑی طاقت رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پانچ سے چھ دہائیاں پہلے تک ہندوستان کی 40 فیصد تجارت ہندوستانی جہازوں پر ہوتی تھی، لیکن نوآبادیاتی ذہنیت نے غیر ملکی جہازوں کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، ایک ایسا ملک جو کبھی سمندری طاقت کے لیے مشہور تھا، آج اپنی 95 فیصد تجارت کے لیے غیر ملکی جہازوں پر منحصر ہے اور اس انحصار کی وجہ سے آج ہندوستان ہر سال تقریباً 75 ارب ڈالر یعنی تقریباً چھ لاکھ کروڑ روپے غیر ملکی شپنگ کمپنیوں کو ادا کرتا ہے۔

وزیر اعظم نے زور دے کر کہا: ’’چاہے وہ جہاز سازی ہو یا دفاعی پیداوار، آج ہر شعبہ نوآبادیاتی ذہنیت کو پیچھے چھوڑ کر نئی بلندیوں کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

جناب مودی نے کہا کہ نوآبادیاتی ذہنیت نے ہندوستان کے نظامِ حکمرانی کو بھی نقصان پہنچایا تھا، کیونکہ طویل عرصے تک حکومتی نظام اپنے ہی شہریوں پر بے اعتمادی کی بنیاد پر کھڑا تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پہلے لوگوں کو اپنے ذاتی کاغذات بھی سرکاری افسر سے تصدیق کروانا پڑتے تھے، مگر یہ بے اعتمادی ختم کرتے ہوئے خود تصدیقی کو کافی قرار دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسے قوانین موجود تھے جن میں معمولی غلطی بھی سنگین جرم بن جاتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے جن وِشواس قانون لایا گیا، جس کے تحت ایسے سیکڑوں قوانین کو غیر فوجداری  کر دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے صرف ایک ہزار روپے کے قرض کے لیے بھی بینک گارنٹی مانگتے تھے، جو بے حد بے اعتمادی کی علامت تھی۔ وزیر اعظم نے زور دیا کہ اس شیطانی دائرے کو مدرا یوجنا کے ذریعے توڑا گیا، جس کے تحت اب تک 37 لاکھ کروڑ روپے کے بغیر گارنٹی قرض دیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس رقم نے اُن نوجوانوں کو حوصلہ دیا جن کے پاس گارنٹی دینے کے لیے کچھ نہیں تھا، اور آج وہ خود روزگار کمانے والے بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں یہ عام سوچ تھی کہ حکومت کو دیا گیا کچھ بھی واپس نہیں آتا، یہ ایک ’ون وے ٹریفک‘ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد مضبوط ہوتا ہے تو اس کے نتائج واضح دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بینکوں میں 78 ہزار کروڑ روپے، انشورنس کمپنیوں کے پاس 14 ہزار کروڑ روپے، میوچوئل فنڈ کمپنیوں کے پاس تین ہزار کروڑ روپے اور ڈویڈنڈ کی صورت میں 9 ہزار کروڑ روپے بغیر کلیم کے پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیسہ غریب اور متوسط طبقے کا ہے اور حکومت اسے اپنے مالکوں کو واپس دینے کے لیے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے خصوصی کیمپ لگائے گئے ہیں اور اب تک تقریباً 500 اضلاع میں ایسے کیمپس کے ذریعے ہزاروں کروڑ روپے حق داروں تک پہنچائے جا چکے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ صرف اثاثوں کی واپسی کا معاملہ نہیں بلکہ اعتماد کا معاملہ ہے، عوام کے اعتماد کو مسلسل جیتنے کے عزم کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا اعتماد ہی قوم کا اصل سرمایہ ہے اور ایسی مہمات نوآبادیاتی ذہنیت کے ہوتے ہوئے کبھی ممکن نہیں ہو سکتی تھیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا: ’’قوم کو ہر میدان میں نوآبادیاتی ذہنیت سے مکمل آزادی دلانی ہوگی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ چند دن پہلے انہوں نے ملک سے اپیل کی تھی کہ سب لوگ دس سال کے ہدف کے ساتھ کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ میکالے کی پالیسی، جس نے ہندوستان میں ذہنی غلامی کے بیج بوئے—2035 میں 200 سال مکمل کرے گی، یعنی دس سال باقی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان دس برسوں میں ہم سب کو مل کر ملک کو نوآبادیاتی ذہنیت سے مکمل طور پر آزاد کرنا ہے۔

انہوں نے کہا: ’’ہندوستان ایسا ملک نہیں جو طے شدہ راستے پر بس چلتا رہے—بہتر مستقبل کے لیے اسے اپنی حدود کو وسعت دینا ہوگی۔‘‘ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کی مستقبل کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے آج ہی حل تلاش کرنے ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی لیے وہ اکثر میک اِن انڈیا اور آتم نربھر بھارت کی بات کرتے ہیں اور کہا کہ اگر یہ مہمات چار سے پانچ دہائیاں پہلے شروع ہو جاتیں تو آج ہندوستان کی حالت کچھ اور ہوتی۔ انہوں نے سیمی کنڈکٹر صنعت کی مثال دی کہ پانچ سے چھ دہائیاں پہلے ایک کمپنی ہندوستان میں سیمی کنڈکٹر پلانٹ لگانا چاہتی تھی، مگر اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور یوں ہندوستان اس میدان میں پیچھے رہ گیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں بھی ایسی ہی صورت حال رہی۔ انہوں نے بتایا کہ آج ہندوستان ہر سال تقریباً 125 لاکھ کروڑ روپے کا پیٹرول، ڈیزل اور گیس درآمد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سورج کی روشنی بے حد وافر ہے، لیکن 2014 تک ہندوستان کی شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت صرف 3 گیگاواٹ تھی۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دس برسوں میں یہ بڑھ کر تقریباً 130 گیگاواٹ ہو گئی ہے، جن میں سے صرف 22 گیگاواٹ چھتوں پر لگے سولر پلانٹس سے حاصل ہو رہی ہے۔

جناب مودی نے کہا کہ پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی یوجنا نے توانائی کے تحفظ کی مہم میں عوام کو براہ راست شریک کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وارانسی کے رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے وہ مقامی اعداد و شمار دے سکتے ہیں، وارانسی میں 26 ہزار سے زیادہ گھروں میں اس اسکیم کے تحت سولر پلانٹ لگائے جا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پلانٹس روزانہ تین لاکھ یونٹ سے زیادہ بجلی پیدا کر رہے ہیں، جس سے لوگوں کو ماہانہ تقریباً پانچ کروڑ روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہر سال تقریباً 90 ہزار میٹرک ٹن کاربن اخراج میں کمی ہو رہی ہے، جس کی تلافی کے لیے 40 لاکھ سے زیادہ درخت لگانے پڑتے۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ یہ صرف وارانسی کے اعداد ہیں اور پورے ملک کا فائدہ تصور کریں تو یہ اسکیم مستقبل بدل دینے کی طاقت رکھتی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 2014 سے پہلے ہندوستان اپنے موبائل فونز کا 75 فیصد درآمد کرتا تھا، لیکن آج درآمد تقریباً صفر تک آچکی ہے اور ملک ایک بڑا برآمد کنندہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014 کے بعد اصلاح لائی گئی، قوم نے کارکردگی دکھائی اور اب پوری دنیا نتائج دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کل کی تبدیلی‘ کا سفر بے شمار اسکیموں، پالیسیوں، فیصلوں، عوامی امنگوں اور عوامی شمولیت کا سفر ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ سفر تسلسل کا سفر ہے، صرف ایک سمٹ کی گفتگو تک محدود نہیں، بلکہ ہندوستان کا قومی عزم ہے۔ وزیر اعظم نے اختتام پر کہا کہ اس عزم کے لیے سب کا تعاون اور اجتماعی کوششیں ضروری ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر سب کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کیا۔

******

ش ح۔ ش ا ر۔ ول

Uno- 2542