Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

لکھنؤ میں راشٹر پریرنا استھل کے افتتاح کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن

لکھنؤ میں راشٹر پریرنا استھل کے افتتاح کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن


بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

اتر پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل، یہاں کے مقبول وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی کابینہ میں میرے سینئر ساتھی اور لکھنؤ کے رکنِ پارلیمنٹ، وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ جی، یوپی بی جے پی کے صدر اور مرکز میں وزرائے کونسل میں میرے ساتھی جناب پنکج چودھری جی، صوبائی حکومت کے نائب وزیرِ اعلیٰ کیشو پرساد موریہ جی، برجیش پاٹھک جی، موجود دیگر وزراء، عوامی نمائندگان، معزز خواتین و حضرات!

آج لکھنؤ کی یہ سرزمین ایک نئی تحریک کی گواہ بن رہی ہے۔ اس پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے میں ملک اور دنیا بھر کو کرسمس کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بھارت میں بھی کروڑوں عیسائی خاندان آج خوشیاں منا رہے ہیں۔ کرسمس کا یہ تہوار سب کی زندگی میں خوشیاں لے کر آئے، یہی ہم سب کی تمنا ہے۔

ساتھیو!

25 دسمبر کا یہ دن ملک کی دو عظیم ہستیوں کی پیدائش کا شاندار اتفاق بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ بھارت رتن اٹل بہاری واجپئی جی اور بھارت رتن مہامنا مدن موہن مالویہ جی—ان دونوں عظیم شخصیات نے بھارت کی شناخت، یکجہتی اور وقار کی حفاظت کی اور قوم کی تعمیر میں اپنی انمٹ چھاپ چھوڑی۔

ساتھیو!

آج 25 دسمبر کو ہی مہاراجہ بجلی پاسی جی کا بھی یومِ پیدائش ہے۔ لکھنؤ کا مشہور بجلی پاسی قلعہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ مہاراجہ بجلی پاسی نے بہادری، بہترین حکمرانی اور شمولیت کی جو وراثت چھوڑی، اسے ہمارے پاسی سماج نے فخر کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ یہ بھی ایک خوشگوار اتفاق ہے کہ اٹل جی نے ہی سن 2000 میں مہاراجہ بجلی پاسی کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔

ساتھیو!

آج اس مقدس دن پر میں مہامنا مالویہ جی، اٹل جی اور مہاراجہ بجلی پاسی کو عقیدت کے ساتھ سلام پیش کرتا ہوں، انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو!

کچھ دیر پہلے مجھے یہاں راشٹر پریرنا استھل کا افتتاح کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ یہ راشٹر پریرنا استھل اُس فکر کی علامت ہے جس نے بھارت کو خودداری، یکجہتی اور خدمت کا راستہ دکھایا ہے۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی، پنڈت دین دیال اُپادھیائے جی اور اٹل بہاری واجپئی جی—ان کی عظیم الشان مورتیاں جتنی بلند ہیں، ان سے ملنے والی تحریک اس سے بھی کہیں زیادہ بلند ہے۔ اٹل جی نے لکھا تھا: نیروتا سے مکھرت مدھوبن، پرہت ارپت اپنا تن-من، جیون کو شت-شت آہوتی  میں، جلنا ہوگا،گلنا ہوگا۔ قدم ملاکر چلنا ہوگا۔ یہ راشٹر پریرنا استھل ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہمارا ہر قدم، ہر کوشش، قوم کی تعمیر کے لیے وقف ہو۔ سب کی مشترکہ کوشش ہی ترقی یافتہ بھارت کے عزم کو حقیقت بنائے گی۔ میں لکھنؤ کو، اتر پردیش کو اور پورے ملک کو اس جدید تحریک گاہ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جیسا کہ ابھی بتایا گیا اور ویڈیو میں بھی دکھایا گیا، جس زمین پر یہ پریرنا استھل بنایا گیا ہے، اس کے تیس ایکڑ سے زائد رقبے پر کئی دہائیوں سے کچرے کا پہاڑ جمع تھا۔ گزشتہ تین برسوں میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ اس منصوبے سے وابستہ تمام مزدوروں، کاریگروں، منصوبہ سازوں، یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کو بھی میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو!

ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے ملک کو سمت دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہی ڈاکٹر مکھرجی تھے جنہوں نے بھارت میں دو دستور، دو نشان اور دو پردھان کے نظام کو مسترد کیا۔ آزادی کے بعد بھی جموں و کشمیر میں یہ نظام بھارت کی سالمیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو فخر ہے کہ ہماری حکومت کو آرٹیکل 370 کی دیوار گرانے کا موقع ملا۔ آج بھارت کا آئین جموں و کشمیر میں بھی پوری طرح نافذ ہے۔

ساتھیو!

آزاد بھارت کے پہلے وزیرِ صنعت کی حیثیت سے ڈاکٹر مکھرجی نے ملک میں اقتصادی خود انحصاری کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے ملک کو پہلی صنعتی پالیسی دی، یعنی بھارت میں صنعتی ترقی کی بنیاد ڈالی۔ آج ہم اسی خود انحصاری کے منتر کو نئی بلندی دے رہے ہیں۔ ’’میڈ اِن انڈیا‘‘ مصنوعات آج دنیا بھر میں پہنچ رہی ہیں۔ یہاں اتر پردیش میں ہی دیکھ لیجیے—ایک طرف ’’ایک ضلع، ایک پیداوار‘‘ کی اتنی بڑی مہم چل رہی ہے، جس سے چھوٹے چھوٹے صنعتوں اور اکائیوں کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف، اتر پردیش میں ایک بہت بڑا دفاعی کوریڈور تعمیر ہو رہا ہے۔ آپریشن سندور میں دنیا نے جس برہموس میزائل کی طاقت دیکھی، وہ اب لکھنؤ میں تیار ہو رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اتر پردیش کا دفاعی کوریڈور دفاعی صنعت کے لیے دنیا بھر میں پہچانا جائے گا۔

ساتھیو!

دہائیوں پہلے پنڈت دین دیال اُپادھیائے جی نے انتودے کا ایک خواب دیکھا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ بھارت کی ترقی کا پیمانہ آخری صف میں کھڑے ’’آخری فرد‘‘ کے چہرے کی مسکراہٹ سے ناپا جائے گا۔ دین دیال جی نے ’’ایکاتم انسانیت‘‘ (یکجا انسانیت) کا فلسفہ بھی پیش کیا، جہاں جسم، من، عقل اور روح—سب کی ترقی ہو۔ دین دیال جی کے خواب کو مودی نے اپنا عزم بنایا ہے۔ ہم نے انتودے کو ’’سیچوریشن‘‘ یعنی مکمل شمولیت کی نئی وسعت دی ہے۔ سیچوریشن کا مطلب ہے ہر ضرورت مند، ہر مستحق کو حکومت کی فلاحی اسکیموں کے دائرے میں لانے کی کوشش۔ جب سیچوریشن کی سوچ ہوتی ہے تو امتیاز نہیں ہوتا—اور یہی اچھی حکمرانی ہے، یہی حقیقی سماجی انصاف ہے، یہی سچا سیکولرازم ہے۔ آج جب ملک کے کروڑوں شہریوں کو بلا امتیاز پہلی بار پکا مکان، بیت الخلا، نل سے پانی، بجلی اور گیس کنکشن مل رہا ہے؛ کروڑوں لوگوں کو پہلی بار مفت اناج اور مفت علاج مل رہا ہے؛ جب آخری صف میں کھڑے فرد تک پہنچنے کی کوشش ہو رہی ہے—تو یہ پنڈت دین دیال جی کے وژن کے ساتھ حقیقی انصاف ہے۔

ساتھیو!

گزشتہ ایک دہائی میں کروڑوں بھارتیوں نے غربت کو شکست دی ہے، غربت پر قابو پایا ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ بی جے پی حکومت نے اُن لوگوں کو ترجیح دی جو پیچھے رہ گئے تھے، اُنہیں ترجیح دی جو آخری صف میں کھڑے تھے۔

ساتھیو!

2014 سے پہلے تقریباً 25 کروڑ ملک کے شہری ایسے تھے جو حکومت کی سماجی تحفظ کی اسکیموں کے دائرے میں آتے تھے—صرف 25 کروڑ۔ آج تقریباً 95 کروڑ بھارتی شہری اس حفاظتی حصار کے دائرے میں ہیں۔ اتر پردیش میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو اس کا فائدہ ملا ہے۔ میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں۔ جس طرح پہلے بینک کھاتے صرف چند لوگوں کے پاس ہوتے تھے، اسی طرح بیمہ بھی چند خوشحال افراد تک محدود تھا۔ ہماری حکومت نے آخری فرد تک بیمہ تحفظ پہنچانے کا عزم کیا۔ اسی مقصد کے تحت پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ یوجنا شروع کی گئی، جس کے ذریعے معمولی پریمیم پر دو لاکھ روپے کا بیمہ یقینی بنایا گیا۔ آج اس اسکیم سے 25 کروڑ سے زیادہ غریب لوگ وابستہ ہیں۔ اسی طرح حادثاتی بیمہ کے لیے پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا چل رہی ہے، جس سے بھی تقریباً 55 کروڑ غریب افراد جڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہ غریب شہری ہیں جو پہلے بیمہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

ساتھیو!

آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ان اسکیموں کے ذریعے تقریباً 25 ہزار کروڑ روپے کے کلیمز ادا کیے گئے ہیں، یعنی چھوٹے چھوٹے خاندانوں، معمولی آمدنی پر گزارہ کرنے والے عام غریب خاندانوں تک 25 ہزار کروڑ روپے کا فائدہ پہنچا ہے۔ مطلب یہ کہ مشکل کے وقت یہ رقم غریب خاندانوں کے کام آئی ہے۔

ساتھیو!

آج اٹل جی کے یومِ پیدائش کا یہ دن سوشاسن کے جشن کا دن بھی ہے۔ ایک طویل عرصے تک ملک میں ’’غربت ہٹاؤ‘‘ جیسے نعروں کو ہی گورننس سمجھ لیا گیا تھا، لیکن اٹل جی نے حقیقی معنوں میں سوشاسن کو زمین پر اتارا۔ آج ڈیجیٹل شناخت کی جتنی بھی بات ہوتی ہے، اس کی بنیاد رکھنے کا کام اٹل جی کی حکومت نے ہی کیا تھا۔ اُس وقت جس خصوصی کارڈ پر کام شروع ہوا تھا، وہ آج آدھار کی شکل میں دنیا بھر میں معروف ہو چکا ہے۔ بھارت میں ٹیلی کام انقلاب کو رفتار دینے کا سہرا بھی اٹل جی کے سر جاتا ہے۔ ان کی حکومت کی بنائی ہوئی ٹیلی کام پالیسی سے گھر گھر فون اور انٹرنیٹ پہنچانا آسان ہوا، اور آج بھارت دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں موبائل اور انٹرنیٹ صارفین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ساتھیو!

آج اٹل جی جہاں بھی ہوں گے، اس بات سے خوش ہوں گے کہ گزشتہ 11 برسوں میں بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا موبائل فون تیار کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اور جس اتر پردیش سے وہ رکنِ پارلیمنٹ رہے، وہی اتر پردیش آج بھارت کی نمبر ون موبائل مینوفیکچرنگ ریاست ہے۔

ساتھیو!

کنیکٹیویٹی کے حوالے سے اٹل جی کے وژن نے اکیسویں صدی کے بھارت کو ابتدائی مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اٹل جی کی حکومت کے دور میں ہی گاؤں گاؤں تک سڑکیں پہنچانے کی مہم شروع کی گئی تھی۔ اسی زمانے میں ’’سورنیم چتُربھُج‘‘ یعنی قومی شاہراہوں کے توسیعی منصوبے پر بھی کام کا آغاز ہوا تھا۔

ساتھیو!

سال 2000 کے بعد سے پردھان منتری گرامین سڑک یوجنا کے تحت اب تک تقریباً 8 لاکھ کلو میٹر سڑکیں دیہات میں تعمیر کی گئی ہیں، جن میں سے قریب 4 لاکھ کلو میٹر دیہی سڑکیں گزشتہ 10-11 برسوں میں بنی ہیں۔

اور ساتھیو!

آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایکسپریس ویز کی تعمیر کس غیر معمولی رفتار سے ہو رہی ہے۔ ہمارا اتر پردیش بھی ایک ’’ایکسپریس وے اسٹیٹ‘‘ کے طور پر اپنی الگ شناخت بنا رہا ہے۔ وہ اٹل جی ہی تھے جنہوں نے دہلی میں میٹرو کی شروعات کی تھی۔ آج ملک کے 20 سے زائد شہروں میں میٹرو نیٹ ورک لاکھوں لوگوں کی زندگی کو آسان بنا رہا ہے۔ بی جے پی–این ڈی اے حکومت نے سوشاسن کی جو وراثت قائم کی تھی، آج بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں اسے نئے ابعاد اور نئی وسعت دے رہی ہیں۔

ساتھیو!

ڈاکٹر مکھرجی، پنڈت دین دیال جی اور اٹل جی—ان تین عظیم شخصیات سے ملنے والی تحریک، ان کے وژنری کام اور یہ عظیم الشان مجسمے، ترقی یافتہ بھارت کی ایک مضبوط بنیاد ہیں۔ آج ان کے مجسمے ہمیں نئی توانائی سے بھر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آزادی کے بعد بھارت میں ہر اچھے کام کو کس طرح ایک ہی خاندان سے جوڑنے کی روایت پروان چڑھی۔ چاہے کتابیں ہوں، سرکاری اسکیمیں ہوں، سرکاری ادارے ہوں یا گلیاں، سڑکیں اور چوراہے—ہر جگہ ایک ہی خاندان کی تعریف، ایک ہی خاندان کے نام اور انہی کے مجسمے نظر آتے رہے۔ بی جے پی نے ملک کو ایک خاندان کی یرغمال بنی اس پرانی روایت سے باہر نکالا ہے۔ ہماری حکومت ماں بھارتی کی خدمت کرنے والی ہر امر اولاد، ہر فرد کے کردار اور خدمات کو عزت دے رہی ہے۔ میں چند مثالیں دیتا ہوں: آج نیتا جی سبھاش چندر بوس کا مجسمہ دہلی کے کرتویہ پتھ پر نصب ہے۔ انڈمان میں جس جزیرے پر نیتا جی نے ترنگا لہرایا تھا، آج اس جزیرے کا نام بھی نیتا جی کے نام پر رکھا گیا ہے۔

ساتھیو!

کوئی یہ نہیں بھول سکتا کہ کس طرح بابا صاحب امبیڈکر کی وراثت کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ دہلی میں کانگریس کے شاہی خاندان نے یہ گناہ کیا، اور یہاں اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی والوں نے بھی یہی جسارت کی۔ لیکن بی جے پی نے بابا صاحب کی وراثت کو مٹنے نہیں دیا۔ آج دہلی سے لے کر لندن تک، بابا صاحب امبیڈکر کے پنچ تیرتھ ان کی وراثت کا اعلان کر رہے ہیں۔

ساتھیو!

سردار ولبھ بھائی پٹیل نے سینکڑوں ریاستوں میں بٹے ہوئے ہمارے ملک کو ایک کیا تھا، لیکن آزادی کے بعد ان کے کام اور ان کے قد—دونوں کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بی جے پی ہی ہے جس نے سردار صاحب کو وہ احترام اور عزت دی جس کے وہ حقیقی حق دار تھے۔ بی جے پی نے ہی سردار پٹیل کا دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ تعمیر کیا اور ’’ایکتا نگر‘‘ کے نام سے ایک تحریک گاہ قائم کی۔ اب ہر سال 31 اکتوبر کو وہاں قومی یومِ یکجہتی کی مرکزی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔

ساتھیو!

ہمارے یہاں دہائیوں تک آدیواسیوں کے کردار اور خدمات کو بھی مناسب مقام نہیں دیا گیا۔ ہماری حکومت نے ہی بھگوان برسا منڈا کا شاندار یادگار تعمیر کرایا۔ ابھی چند ہفتے پہلے ہی چھتیس گڑھ میں شہید ویر نارائن سنگھ آدیواسی میوزیم کا افتتاح کیا گیا ہے۔

ساتھیو!

ملک بھر میں اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ یہیں اتر پردیش میں ہی دیکھ لیجیے—مہاراجہ سہیل دیو کا اسمارک تب بنا جب بی جے پی کی حکومت بنی۔ یہاں نشاد راج اور پربھو شری رام کی ملن استھلی کو اب جا کر عزت و وقار ملا ہے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ سے لے کر چوری چورا کے شہیدوں تک، ماں بھارتی کے سپوتوں کی قربانیوں اور خدمات کو بی جے پی حکومت نے ہی پورے احترام اور انکساری کے ساتھ یاد کیا ہے۔

ساتھیو!

خاندانی سیاست کی ایک خاص پہچان ہوتی ہے—یہ عدم تحفظ سے بھری ہوتی ہے۔ اسی لیے خاندان پرستوں کے لیے دوسروں کی لکیر چھوٹی کرنا مجبوری بن جاتی ہے، تاکہ ان کے خاندان کا قد بڑا دکھائی دے اور ان کی دکان چلتی رہے۔ اسی سوچ نے بھارت میں سیاسی چھوت چھات کی روایت کو جنم دیا۔ ذرا سوچئے، آزاد بھارت میں کئی وزیرِ اعظم ہوئے، لیکن دارالحکومت دہلی میں جو میوزیم تھا، اس میں کئی سابق وزرائے اعظم کو نظرانداز کیا گیا۔ اس صورتحال کو بھی بی جے پی اور این ڈی اے نے ہی بدلا ہے۔ آج جب آپ دہلی جاتے ہیں تو شاندار پردھان منتری سنگرہالیہ آپ کا استقبال کرتا ہے، جہاں آزاد بھارت کے ہر وزیرِ اعظم کو—چاہے ان کی مدتِ کار کتنی ہی مختصر کیوں نہ رہی ہو—پورا احترام اور مناسب مقام دیا گیا ہے۔

ساتھیو!

کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے سیاسی طور پر بی جے پی کو ہمیشہ اچھوت بنا کر رکھا۔ لیکن بی جے پی کے سنسکار ہمیں سب کا احترام کرنا سکھاتے ہیں۔ گزشتہ 11 برسوں میں بی جے پی حکومت، این ڈی اے حکومت کے دور میں نرسمہا راؤ جی اور پرنب بابو کو بھارت رتن دیا گیا ہے۔ یہی ہماری حکومت ہے جس نے ملائم سنگھ یادو جی اور ترون گوگوئی جی جیسے کئی رہنماؤں کو قومی اعزازات سے نوازا ہے۔ کانگریس سے، اور یہاں سماجوادی پارٹی سے، ایسی کسی توقع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے دورِ حکومت میں تو بی جے پی کے رہنماؤں کو صرف تذلیل ہی نصیب ہوتی تھی۔

ساتھیو!

بی جے پی کی ڈبل انجن حکومت کا سب سے زیادہ فائدہ اتر پردیش کو ہو رہا ہے۔ اتر پردیش اکیسویں صدی کے بھارت میں اپنی ایک الگ شناخت بنا رہا ہے۔ اور میرا یہ بھی اعزاز ہے کہ میں یوپی سے رکنِ پارلیمنٹ ہوں۔ آج میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اتر پردیش کے محنتی لوگ ایک نیا مستقبل رقم کر رہے ہیں۔ کبھی یوپی کا ذکر خراب قانون و انتظام کے لیے ہوتا تھا، آج یوپی کا ذکر ترقی کے لیے ہوتا ہے۔ آج یوپی ملک کے سیاحتی نقشے پر تیزی سے ابھر رہا ہے۔ ایودھیا میں شاندار رام مندر، کاشی وشوناتھ دھام—یہ سب دنیا میں یوپی کی نئی پہچان کے نشان بن رہے ہیں۔ اور راشٹر پریرنا استھل جیسے جدید تعمیراتی منصوبے اتر پردیش کی نئی شبیہ کو مزید روشن کر رہے ہیں۔

ساتھیو!

ہمیں امید ہے کہ ہمارا اتر پردیش، سوشاسن، خوشحالی اور حقیقی سماجی انصاف کے ایک مثالی ماڈل کے طور پر مزید بلندیوں کو چھوئے۔ اسی تمنا کے ساتھ آپ سب کو ایک بار پھر راشٹر پریرنا استھل کی مبارکباد دیتا ہوں۔

میں کہوں: ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی—آپ کہیں: امر رہیں، امر رہیں۔

میں کہوں: پنڈت دین دیال اُپادھیائے جی—آپ کہیں: امر رہیں، امر رہیں۔

میں کہوں: اٹل بہاری واجپئی جی—آپ کہیں: امر رہیں، امر رہیں۔

شیاما پرساد مکھرجی — امر رہیں، امر رہیں۔

شیاما پرساد مکھرجی — امر رہیں، امر رہیں۔

شیاما پرساد مکھرجی — امر رہیں، امر رہیں۔

پنڈت دین دیال جی — امر رہیں، امر رہیں۔

پنڈت دین دیال جی — امر رہیں، امر رہیں۔

پنڈت دین دیال جی — امر رہیں، امر رہیں۔

اٹل بہاری واجپئی جی — امر رہیں، امر رہیں۔

اٹل بہاری واجپئی جی — امر رہیں، امر رہیں۔

اٹل بہاری واجپئی جی — امر رہیں، امر رہیں۔

بھارت ماتا کی جے!

وندے ماترم۔

وندے ماترم۔

بہت بہت شکریہ۔

************

 

ش ح ۔   م  د ۔  م  ص

(U :  3921   )